ہے ابھی مہتاب باقی اور باقی ہے شراب
ہے ابھی مہتاب باقی اور باقی ہے شراب
اور باقی میرے تیرے درمیاں صدہا حساب
دل میں یوں بیدار ہوتے ہیں خیالات غزل
آنکھیں ملتے جس طرح اٹھے کوئی مست شباب
گیسوئے خم دار میں اشعار تر کی ٹھنڈکیں
آتش رخسار میں قلب تپاں کا التہاب
ایک عالم پر نہیں رہتی ہیں کیفیات عشق
گاہ ریگستاں بھی دریا گاہ دریا بھی سراب
کون رکھ سکتا ہے اس کو ساکن و جامد کہ زیست
انقلاب و انقلاب و انقلاب و انقلاب
ڈھونڈئیے کیوں استعارہ اور تشبیہ و مثال
حسن تو وہ ہے بتائیں جس کو حسن لاجواب
اے فراقؔ اٹھتی ہیں حیرت کی نگاہیں با ادب
اس کے دل کی خلوتوں میں ہو رہا ہوں باریاب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.