ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت
ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت
پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساس تنہائی بہت
اب یہ سوچا ہے کہ اپنی ذات میں سمٹے رہیں
ہم نے کر کے دیکھ لی سب سے شناسائی بہت
منہ چھپا کر آستیں میں دیر تک روتے رہے
رات ڈھلتی چاندنی میں اس کی یاد آئی بہت
قطرہ قطرہ اشک غم آنکھوں سے آخر بہہ گئے
ہم نے پلکوں کی انہیں زنجیر پہنائی بہت
اپنا سایہ بھی جدا لگتا ہے اپنی ذات سے
ہم نے اس سے دل لگانے کی سزا پائی بہت
اب تو سیل درد تھم جائے سکوں دل کو ملے
زخم دل میں آ چکی ہے اب تو گہرائی بہت
شام کے سایوں کی صورت پھیلتے جاتے ہیں ہم
لگ رہی تنگ ہم کو گھر کی انگنائی بہت
آئنہ بن کے وہ صورت سامنے جب آ گئی
عکس اپنا دیکھ کر مجھ کو ہنسی آئی بہت
وہ سحر تاریکیوں میں آج بھی روپوش ہے
جس کے غم میں کھو چکی آنکھوں کی بینائی بہت
میں تو جھونکا تھا اسیر دام کیا ہوتا کلیمؔ
اس نے زلفوں کی مجھے زنجیر پہنائی بہت
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 647)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.