ہے غزل میں جو مری مدحت رخسار بہت
ہے غزل میں جو مری مدحت رخسار بہت
اپنا مطلع بھی ہوا مطلع انوار بہت
حسن والے نہ ہوں کیوں دل کے طلب گار بہت
جنس اچھی ہو تو ملتے ہیں خریدار بہت
نقد جاں تک لئے آتے ہیں خریدار بہت
اوج پر حسن کی ہے گرمئ بازار بہت
کیوں نہ مسحور کرے سحر بیانی ان کی
پھول جھڑتے ہیں دہن سے دم گفتار بہت
آپ اپنا کوئی وعدہ تو وفا کرتے نہیں
مجھ سے الفت کا لیا کرتے ہیں اقرار بہت
فرش و بالیں کا یہ سامان کہاں سے لائیں
وحشیوں کے لئے ہے سایۂ دیوار بہت
منزل عشق و محبت ہے نہایت دشوار
ٹھوکریں کھاتے ہیں اس راہ میں ہشیار بہت
وصل کی بات توجہ سے وہ سنتے ہی نہیں
ان کا اقرار ہے کم اور ہے انکار بہت
دامن ان کا کبھی آلودۂ عصیاں نہ ہوا
پھر بھی نادم رہے ناکردہ گنہ گار بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.