ہے عشق تو پھر جاں سے گزر کیوں نہیں جاتے
ہے عشق تو پھر جاں سے گزر کیوں نہیں جاتے
قاتل اسے کہتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے
ایفا کا اگر دل میں ارادہ ہی نہیں ہے
وعدے سے پھر اے دوست مکر کیوں نہیں جاتے
دنیا میں حسیں اور مناظر بھی بہت ہیں
تم کوچۂ جاناں سے گزر کیوں نہیں جاتے
قاتل تمہیں اب دیکھ کے گھبرانے لگے ہیں
مقتل میں بہ انداز دگر کیوں نہیں جاتے
سنتے تھے کہ آئے گا کبھی وصل کا موسم
پھر ہجر کے یہ شام و سحر کیوں نہیں جاتے
جذبہ ہے اگر دل میں تو پھر روشنی بن کر
تاریک فضاؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتے
صیاد سے گر اہل چمن اتنے خفا ہیں
اس بار کوئی فیصلہ کر کیوں نہیں جاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.