ہے کارواں کا شور سر رہ گزر اٹھا
ہے کارواں کا شور سر رہ گزر اٹھا
جانا ہے گر تجھے بھی تو رخت سفر اٹھا
تاریکیوں میں وقت کی رقص شرر اٹھا
خاموش فرش آب پہ تو بھی لہر اٹھا
شبنم حقیر تیرے لیے ہے شعاع مہر
لالے کے دست ناز سے پھر کیوں گہر اٹھا
خیرہ ہے آنکھ تیری یہاں ظلمتوں سے کیوں
نکلا ہے آفتاب ذرا تو نظر اٹھا
گردش ہے مہر و ماہ کی زنجیر بن گئی
بڑھ کر تو آج پردۂ شام و سحر اٹھا
ناکامیوں سے ڈرتی ہیں ہمت کی پستیاں
ذروں پہ کیوں نظر ہے تو بڑھ کر گہر اٹھا
سائے سے اپنے کس لیے ڈرتا ہے اس قدر
کوئی نہیں ہے تیغ ذرا اپنا سر اٹھا
اپنی فغاں بھی اے لب خاموش کر بلند
سارے جہاں میں کیسا ہے یہ شور و شر اٹھا
پیتے رہیں گے خون تمنا ہی کب تلک
اب میکدے میں جام بہ طرز دگر اٹھا
نظریں یہ کس سے وقت کے آمر نے پھیر لیں
نیزے پہ آج دیکھیے کس کا یہ سر اٹھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.