ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں
ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں
بنا لیا ہے اداسی نے اک مکاں مجھ میں
ملا ہے اذن سخن کی مسافتوں کا پھر
کھلے ہوئے ہیں تخیل کے بادباں مجھ میں
سحابی شام سر چشم پھیلتے جگنو
کسی خیال نے بو دی یہ کہکشاں مجھ میں
مہاجرت یہ شجر در شجر ہواؤں کی
بسائے جاتی ہے خانہ بدوشیاں مجھ میں
عجیب ضد پہ بضد ہے یہ مشت خاک بدن
اگر ہے میری رہے پھر یہ میری جاں مجھ میں
مرا وجود بنا ہے یہ کیسی مٹی سے
سمائے جاتی ہیں کتنی ہی ہستیاں مجھ میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.