ہے مصلحت کی اسیر دنیا میں جانتا ہوں
ہے مصلحت کی اسیر دنیا میں جانتا ہوں
کرے گی کس در پہ جا کے سجدہ میں جانتا ہوں
ہوا کی جتنی نوازشیں ہیں یہ سازشیں ہیں
چراغ اور آندھیوں کا رشتہ میں جانتا ہوں
میں اپنے اشکوں کا چھینٹا دے دوں تو ہوش آئے
ابھی ہے اس کا ضمیر زندہ میں جانتا ہوں
یہ اس کی تیغیں یہ اس کے نیزے یہ اس کے خنجر
پگھلنے والا ہے سارا لوہا میں جانتا ہوں
کہاں سے بال آئینے میں آئے یہ دیکھنا ہے
کہاں سے تقسیم عکس ہوگا میں جانتا ہوں
جو ذمہ داری ملی ہے جس کو نبھا رہا ہے
نہ کوئی پیاسا نہ کوئی دریا میں جانتا ہوں
کسی زمانے کی معرفت کیا کلام کرنا
بدلتا رہتا ہے یہ زمانہ میں جانتا ہوں
سمجھ رہا ہوں وہ کیسے بچھڑے گا مجھ سے طارقؔ
کہاں وہ بدلے گا اپنا رستہ میں جانتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.