ہے مذاق زندہ دلی یہی اسی مصلحت نے مزا دیا
ہے مذاق زندہ دلی یہی اسی مصلحت نے مزا دیا
نہ جدا ہو دل سے کسک کبھی وہ مزاج درد بنا دیا
میں ابھی کہاں تھا دل حزیں جو کھلی ہے آنکھ تو کچھ نہیں
مرا فرش خاک تو ہے وہیں مجھے عرش خواب نے کیا دیا
کوئی حق تھا جس کا گلہ کروں کوئی تم سے کہنے کی بات ہے
کہ ہنسی خوشی کے سلوک کا جو رواج تھا وہ اٹھا دیا
مرے درد دل کی کسے خبر کہ غریب دل کا پیامبر
وہی رنگ رخ تھا کسی قدر جو ہنسی میں سب نے اڑا دیا
ہے مغالطہ بھی عجیب شے وہ نہ یاد آئے گا تا بہ کے
جو چھپا کے اپنے ہی ذہن میں یہ سمجھ لیا کہ بھلا دیا
رہ و رسم عشق کی منزلیں وہ نزاکتیں وہ لطافتیں
کبھی لطف آفت جاں بنا کبھی جھڑکیوں نے مزا دیا
وہ تلون دم ہوش تھا کبھی کچھ بنے کبھی کچھ بنے
یہ جنون عشق کی شان ہے جو بنا دیا سو بنا دیا
یہ چراغ میری امید کا یہ گھڑی گھڑی ترا مشغلہ
کبھی دور ہی سے جلا دیا کبھی پاس آ کے بجھا دیا
جو نظر ملی تو یہ سوچ تھا کہ سوال آپ سے کیا کروں
جو کیا سوال تو سوچ ہے کہ جواب آپ نے کیا دیا
ہے رضاؔ یہ حسب مقام دل کہ پیام دل ہو بہ نام دل
کوئی قدردان کلام دل کہیں مل گیا تو سنا دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.