ہے پھیلی چار سو یہ تیرگی کیا
ہے پھیلی چار سو یہ تیرگی کیا
جو شمع آرزو تھی بجھ گئی کیا
بنانا اور بنا کر توڑ دینا
جنوں انگیز ہے شیشہ گری کیا
میں اپنا آپ دشمن ہو گیا ہوں
کرے گا اب کوئی چارہ گری کیا
خفا مجھ سے جو میری زندگی ہے
اجل کو بھی ہے کم ناراضگی کیا
نہ جانے آج کیوں لٹنے کا غم ہے
کوئی دولت ہمارے پاس تھی کیا
گلوں تک آ ہی پہنچا دست گلچیں
چمن کی آبرو باقی رہی کیا
پتا جس کو ملا تیرا وہ غم ہے
کمال آگہی ہے بے خودی کیا
یہاں تو آگ سی دل میں لگی ہے
لگی دل کی ہے کوئی دل لگی کیا
تکبر سے کسی کو کیا ملا ہے
حباب بحر کی دریا دلی کیا
نہ راس آئے گی منظرؔ شعر گوئی
کہ تم کیا اور تمہاری شاعری کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.