ہے یہ اک عقدہ کہ اس دنیا میں لوگ آتے ہیں کیوں
ہے یہ اک عقدہ کہ اس دنیا میں لوگ آتے ہیں کیوں
اور جو آنا ہی ہے تو آ کر چلے جاتے ہیں کیوں
زندگی کے ارتقا کی آخری صورت ہے موت
یہ حقیقت ہے تو اس سے لوگ گھبراتے ہیں کیوں
آپ نے کب زہر گھولا میرے جام زیست میں
مجھ سے اب آنکھیں ملاتے آپ شرماتے ہیں کیوں
کیوں نہیں کرتے ہیں اپنے واسطے جنت کی فکر
سبز باغ آخر یہ واعظ ہم کو دکھلاتے ہیں کیوں
کیا نہیں واقف ہیں یہ غنچے نظام دہر سے
خاک میں ملنے کو باہر شاخ سے آتے ہیں کیوں
ابن آدم سے ہوئی تھی جس کی خونیں ابتدا
وہ کہانی زندگی میں لوگ دہراتے ہیں کیوں
کیوں نہیں کہہ پاتے اس کو آپ کے جو دل میں ہے
کیوں نہیں ہوتے ادا الفاظ ہکلاتے ہیں کیوں
ہے جفائے دست قدرت یا خود انساں کا ستم
غم کے بادل بجلیوں کی آگ برساتے ہیں کیوں
کچھ تو ان کے پاس ہے وہ جس سے یہ محروم ہیں
شاہ درویشوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں کیوں
ارتقائے ذہن نے آخر کہاں پہنچا دیا
اس بھری دنیا میں تنہا خود کو ہم پاتے ہیں کیوں
اور گمراہی کا باعث ہوگی کوشش آپ کی
جو سمجھ سے ہے پرے وہ بات سمجھاتے ہیں کیوں
ہے ہی کیا پاس ان کے دو ہاتھوں کی طاقت کے سوا
بے نواؤں سے تونگر اتنا گھبراتے ہیں کیوں
ظلم کا رد عمل فطری ہے اس کا شکوہ کیا
ڈر اگر شعلوں سے ہے پھر آگ بھڑکاتے ہیں کیوں
ہم نے مانا مشکلوں سے آپ کا ہے سابقہ
کیوں نہیں لڑتے ولیؔ آپ ان سے گھبراتے ہیں کیوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.