ہے زمیں پر دیار مٹی کا
مٹی سہتی ہے بار مٹی کا
سجدہ کرنے سے جب کیا انکار
تب وہ سمجھا وقار مٹی کا
اس نے پتلے میں جان کیا ڈالی
بن گیا شاہکار مٹی کا
اس کو ملنا ہے خاک میں اک دن
کچھ نہیں اعتبار مٹی کا
کس اذیت سے جان نکلی ہے
اس پہ بھاری مزار مٹی کا
جان پردیس میں گئی لیکن
ہند کو انتظار مٹی کا
جسم اطہر لحد میں رکھا ہے
کب ہوا وہ شکار مٹی کا
آج برسات پی گئی اس کو
جو تھا پروردگار مٹی کا
یہ جو چشمے ابلتے ہیں کیا ہے
رونا زار و قطار مٹی کا
آنکھ میں چبھ رہی ہے عریانی
جیسے گرد و غبار مٹی کا
بعد مرنے کے ہی چکا پایا
مجھ پہ جو تھا ادھار مٹی کا
موت احسنؔ لحد میں لے آئی
یہ ہے مٹی سے پیار مٹی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.