ہیں دن جو خوف کے سائے میں رات سہمی ہوئی
ہیں دن جو خوف کے سائے میں رات سہمی ہوئی
دکھائی دینے لگی کائنات سہمی ہوئی
قدم قدم پہ ہے اک ایسی موت کا سایا
گھروں میں رہ کے بھی ہے یہ حیات سہمی ہوئی
یہاں ہوں آج رعایا کہ ظل سبحانی
کوئی نہیں ہے نہ ہو جس کی ذات سہمی ہوئی
سلے ہوئے تو نہیں ہیں ہمارے ہونٹ مگر
جو بولتے ہیں نکلتی ہے بات سہمی ہوئی
بہا رہی ہے ندامت کچھ اس طرح آنسو
کہ جیسے نکلی ہو کوئی برات سہمی ہوئی
گناہ دنیا میں ہر سو ہیں سر اٹھائے ہوئے
کہیں کھڑی ہے کنارے نجات سہمی ہوئی
کہاں سے آئیں گے شاہدؔ خوشی کے مترادف
ہے لفظ لفظ ہماری لغات سہمی ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.