ہیں ریگ زار وقت پہ سارے نشاں کہاں
ہیں ریگ زار وقت پہ سارے نشاں کہاں
کیا جانے زندگی کا گیا کارواں کہاں
آرام لینے دیتا ہے دور زماں کہاں
ٹھہرے جو راہ میں تو رکے کارواں کہاں
بچتا ہے باڑھ باندھے سے بھی گلستاں کہاں
رکتی ہے روکنے سے بھی آتی خزاں کہاں
زنداں کہاں سلگتا ہوا آشیاں کہاں
پہنچا سونامی لے کے کہاں سے دھواں کہاں
ہم نے تمہیں کیا ہے غم دل بیاں کہاں
دنیا مگر سمجھتی ہے دل کی زباں کہاں
ہے فخر کی یہ بات کہ وہ ہم کو آزمائیں
ورنہ ہر اک کا ہوتا ہے یوں امتحاں کہاں
دنیا میں آدمی کو سکوں کی تلاش تھی
دیوانہ وار ڈھونڈھا ہے اس کو کہاں کہاں
ہم اپنے ہی وجود کے صحرا میں کھو گئے
آخر تلاش کرتے کسی کا نشاں کہاں
اپنی بساط بھر تو اڑا آدمی مگر
یہ ایک مشت خاک کہاں آسماں کہاں
جس میں لبوں کے ساتھ گم آہنگ دل بھی ہو
انسان ہونے پاتا ہے یوں شادماں کہاں
کوئی نہ ہو تو رہتی ہے پرچھائیں اپنے ساتھ
سورج کی روشنی میں ہیں تنہائیاں کہاں
ہوتا ہے دوستوں ہی سے آرام جاں نصیب
سب کو مگر نصیب یہ آرام جاں کہاں
جانا تھا روح کو تو بدن سے نکل گئی
سانسیں الجھ الجھ کے یہ بولیں کہاں کہاں
جینے کی ذمہ داریاں کیوں ہم نے کیں قبول
اب پھینک آئیں جا کے یہ بار گراں کہاں
یارو مجھے اندھیرے میں تم چھوڑ تو گئے
مجھ سے چھپا گئے مری پرچھائیاں کہاں
جب تیرگی میں جسموں کی پہچان ہے محال
پیکر کو اپنے ڈھونڈھیں گی پرچھائیاں کہاں
جس میں سکوں ہو غم کی رسائی جہاں نہ ہو
ایسی کوئی زمین کہاں آسماں کہاں
تاراجی چمن کا نظارہ تو دیکھ جاؤ
پھر دیکھنے کو پاؤ گے ایسا سماں کہاں
قربانی دینے والے تو برباد ہو گئے
قربانیاں ہوئی ہیں مگر رائیگاں کہاں
جو ایک دوسرے کی حقیقت چھپا سکے
ایسا حجاب ان کے مرے درمیاں کہاں
کیوں استوار تم نے ازل میں کیا اسے
اب ٹوٹتا ہے رابطۂ جسم و جاں کہاں
کتنی ہی وارداتیں بیاں ہو نہیں سکیں
پوری ہوئی ہے دل کی ابھی داستاں کہاں
ہر دور میں لگے ہوئے تنگئ دل کے قفل
ہوگا غریب شہر کوئی میہماں کہاں
تم سامنے ہو اور میں گم اپنے آپ میں
پہنچا دیا یہ تم نے مجھے ناگہاں کہاں
کہہ لیں سروشؔ کوئی غزل اک نشست میں
دھارا اب اپنی فکر کا ایسا رواں کہاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.