حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے
حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے
تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے
تو اہل نظر ہے تو نہیں تجھ کو خبر کیوں
پہلو میں ترے کوئی زمانے سے کھڑا ہے
لکھا ہے مرا نام سمندر پہ ہوا نے
اور دونو کی فطرت میں سکوں ہے نہ وفا ہے
میں شہر و بیاباں میں تجھے ڈھونڈ چکا ہوں
بے درد تو کس حجلۂ پنہاں میں چھپا ہے
ہم رکھتے ہیں دعویٰ کہ ہے قابو ہمیں دل پر
تو سامنے آ جائے تو یہ بات جدا ہے
میں دوزخ جاں میں بھی رہا محو تگ و تاز
اے خالق افلاک تجھے تو یہ پتا ہے
غم ہے کہ مسلسل اسی شدت سے ہے جاری
یوں کہنے کو اس عمر کا ہر لمحہ نیا ہے
ہر سمت ہوا تیز فضا تا بہ افق تنگ
دل ذرۂ صحرا ہے بگولوں میں گھرا ہے
کیوں جاگے ہوئے شہر میں تنہا ہے ہر اک شخص
یہ روشنی کیسی ہے کہ سایہ بھی جدا ہے
اے داور محشر تجھے خود تیری قسم ہے
انصاف سے کہہ دل کبھی تیرا بھی پھٹا ہے
محسوس کیا ہے کبھی تو نے بھی وہ خنجر
غم بن کے جو ہر شخص کے سینے میں گڑا ہے
ٹھہرائے اسے عرشؔ کوئی کیسے جفا کیش
جو مجھ سے الگ رہ کے بھی ہم راہ چلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.