ہم اپنے پاس بھی رکھتے تھے آن بان کبھی
ہم اپنے پاس بھی رکھتے تھے آن بان کبھی
وہ حکم ہوتا تھا کھلتی تھی جب زبان کبھی
جنہیں سمیٹ دیا وقت کے تقاضوں سے
انہیں پروں میں فلک بوس تھی اڑان کبھی
وہ کیسے لوگ تھے پلکیں بچھائے رہتے تھے
پڑوس میں بھی جو آ جائے میہمان کبھی
جو قتل و خون کا بازار بند ہو جائے
مری زمین بھی ہو جائے آسمان کبھی
جو اپنے سر پہ سدا سائبان رکھتے ہیں
انہیں بھی دھوپ میں دینا ہے امتحان کبھی
رہے خیال یہ جاویدؔ دار فانی میں
جو ہے وجود تو ہونا ہے بے نشان کبھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.