ہم اپنے سر پہ تو سورج اٹھا کے چلتے ہیں
ہم اپنے سر پہ تو سورج اٹھا کے چلتے ہیں
سنا ہے برف کے گھر میں بھی لوگ جلتے ہیں
یہ کیسی رت ہے کہ نیزوں پہ سر اچھلتے ہیں
ہمارے شہر کے بچوں کے دل دہلتے ہیں
جو ریڈیم کے اجالے رخوں پہ ملتے ہیں
وہ اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتے ہیں
وہ ہم کہ خار بھی ہم سے جدا نہیں ہوتے
وہ کیسے لوگ ہیں پھولوں کو بھی مسلتے ہیں
جو مجھ پہ گزرے ہیں بیتے ہیں جن کو جھیلا ہے
وہ حادثے مرے جام غزل میں ڈھلتے ہیں
فلک سے آگ برستی تو کوئی بات نہ تھی
زمین والے زمیں پر ہی زہر اگلتے ہیں
وہ فصل گل نہ سہی یہ خزاں سہی انورؔ
کبھی تو کاغذی پھولوں کے دن بدلتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.