ہم اپنی حقیقت کس سے کہیں ہیں پیاسے کہ سیراب ہیں ہم
ہم اپنی حقیقت کس سے کہیں ہیں پیاسے کہ سیراب ہیں ہم
ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم
اب غم کوئی نہ سرشاری بس چلنے کی ہے تیاری
اب دھوپ ہے پھیلی آنگن میں اور کچی نیند کے خواب ہیں ہم
ہاں شمع تمنا بجھ بھی گئی اب دل تیرہ تاریک بہت
اب حدت غم نہ جوش جنوں اے دشت طلب برفاب ہیں ہم
یہ تنہائی یہ خاموشی تارا بھی نہیں اس شام کوئی
کچھ داغ سمیٹے سینے میں تنہا تنہا مہتاب ہیں ہم
ہم جس میں ڈوب کے ابھرے ہیں وہ دریا کیسا دریا تھا
یہ کیسا افق ہے جس کی اتھاہ گہرائی میں غرقاب ہیں ہم
ہم مثل شرر ہیں جگنو ہیں ہم تیرہ شب کے آنسو ہیں
ہم نجم سحر ہم رشک قمر ہاں ہر صورت شب تاب ہیں ہم
اک حزن و ملال کا سیل بلا سب خواب بہا کر لے بھی گیا
پھر پھول کھلے من آنگن میں پھر دیکھ ہمیں شاداب ہیں ہم
لاکھوں ہم جیسے ملتے ہیں نایاب نہیں ہیں ہم احمدؔ
ہاں ان کے لیے جو دل سے ملے وہ جانتے ہیں کم یاب ہیں ہم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.