ہم اپنی کہانی بھول گئے ہم اپنا فسانا بھول گئے
ہم اپنی کہانی بھول گئے ہم اپنا فسانا بھول گئے
ایسا یہ زمانہ رنگ لایا ہم ہنسنا ہنسانا بھول گئے
بلبل کا چہکنا یاد رہا پھولوں کا مہکنا یاد رہا
اپنی ہی حقیقت یاد نہیں اپنا ہی ترانا بھول گئے
مے خانہ کی راتیں یاد آئیں بت خانے کی باتیں یاد آئیں
پہنچے جو حرم کی چوکھٹ پر سر اپنا جھکانا بھول گئے
یہ ظلم و ستم کے متوالے انصاف کا دعویٰ کرتے ہیں
دیں کس کو سزا ہے کس کی خطا یہ اہل زمانہ بھول گئے
آغاز جفا کی تلخی سے گھبرانا بھی اک نادانی ہے
ان پر بھی کوئی وقت آئے گا وہ اپنا زمانہ بھول گئے
ساقی ہے جدا میخانے سے ساغر ہے جدا پیمانے سے
ہستی کے تلاطم میں پھنس کر سب پینا پلانا بھول گئے
الفت کی قسم اس دنیا میں اب کوئی کسی کا بھی نہ رہا
بیگانوں کا شکوہ کیا کیجے اپنے اپنانا بھول گئے
ہے شمع خفا پروانے سے ساغر ہے خجل پیمانے سے
اٹھتا ہے دھواں میخانے سے سب پینا پلانا بھول گئے
اک ساز شکستہ لے کے نسیمؔ اس گلشن میں کیا جائیں کہ ہم
بلبل کو رلانا بھول گئے پھولوں کو ہنسانا بھول گئے
- کتاب : Harf-e-dil (Pg. 73)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.