ہم اپنی ذات کے اپنی انا کے قیدی ہیں
ہم اپنی ذات کے اپنی انا کے قیدی ہیں
دل و نظر کے دریچے وفا کے قیدی ہیں
جو ہو سکے تو عطا کر اڑان کی خواہش
ابھی قفس میں پرندے جفا کے قیدی ہیں
دھنک جبھی تو فلک پر دکھائی دیتی ہے
زمیں کے رنگ یہ سارے فضا کے قیدی ہیں
یہ جانتے ہوئے مٹی میں مٹی ہونا ہے
غرور کرتے ہیں جب کہ فنا کے قیدی ہیں
عجیب دور ہے مردہ ضمیر لوگوں کا
عجیب طور کے جرم و سزا کے قیدی ہیں
جو لوگ موت کے منہ سے بھی بچ نکلتے ہیں
یہ مان لو کہ وہ ماں کی دعا کے قیدی ہیں
یہ جن کی آنکھوں کی طغیانیاں نہیں رکتیں
فرات و دشت کے کرب و بلا کے قیدی ہیں
ربابؔ کس کو خبر ہے کہ کب بلاوا ہو
یہ بال و پر تو ازل سے قضا کے قیدی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.