ہم عزیز اس قدر اب جی کا زیاں رکھتے ہیں
ہم عزیز اس قدر اب جی کا زیاں رکھتے ہیں
دوست بھی رکھتے ہیں تو دشمن جاں رکھتے ہیں
ہاں وہی لوگ جو دل دادۂ فصل گل تھے
ہیں وہ بیزار کے ارمان خزاں رکھتے ہیں
ذہن افسردہ ہوا ایسا کہ اعصاب ہیں شل
ورنہ ہم نام خدا قلب جواں رکھتے ہیں
سائے سے کرتے ہیں ہم اپنے کڑی دھوپ میں اوٹ
آنکھ کی تیرگی میں نور فشاں رکھتے ہیں
لب محبوب ہو پیمانۂ صافی ہو کہ زہر
جسم جل اٹھتا ہے ہم ہونٹ جہاں رکھتے ہیں
ہم سفر کوئی جہاں چھوڑ کے چل دیتا ہے
اسی منزل کا لقب سنگ گراں رکھتے ہیں
جس جگہ دل تھا وہاں حسرت دل باقی ہے
جس جگہ زخم تھا اب صرف نشاں رکھتے ہیں
لڑکھڑا جاتے ہیں مے خانہ ہو جیسے دنیا
لاکھ ہم پاؤں سنبھل کر بھی یہاں رکھتے ہیں
ان کی دزدیدہ نگاہوں کو دعا دو شوکتؔ
ورنہ معلوم جو ہم طبع رواں رکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.