ہم بھی اپنے شہر میں یارو پھرتے تھے فرہاد بنے
ہم بھی اپنے شہر میں یارو پھرتے تھے فرہاد بنے
کیا کیا عشق رچایا برسوں لکھیں تو روداد بنے
جن آنکھوں کو پڑھتے پڑھتے غزلیں کہنا سیکھ گئے
اب ان آنکھوں کے افسانے بھولی بصری یاد بنے
سارے پنچھی پنکھ سمیٹے ڈالی ڈالی بیٹھے ہیں
جس کا جی ہو جال بچھائے جو چاہے صیاد بنے
شاہ جہاں کا تاج محل ہو یا جوگی کی کٹیا ہو
سپنوں کے ہر روپ نگر کی مٹی ہی بنیاد بنے
غزلیں کہنا سہل نہ جانو یہ لفظوں کا کھیل نہیں
برسوں ہم نے زہر پیا ہے شاعر اس کے بعد بنے
قیصرؔ میری غزلیں آخر کس کے غم میں ڈوبی ہیں
جب کاغذ پر لکھ کر دیکھوں ہر نغمہ فریاد بنے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.