ہم بھی یقین وعدۂ فردا نہ کر سکے
ہم بھی یقین وعدۂ فردا نہ کر سکے
دو دن کی زندگی کا بھروسا نہ کر سکے
احساں مریض غم پہ مسیحا نہ کر سکے
اچھا یہی ہوا کہ وہ اچھا نہ کر سکے
رعنائی خیال ہمیں روکتی رہی
موقع بھی تھا تو عرض تمنا نہ کر سکے
کچھ بات ہے کہ ہم سے محبت ہوئی نہ ترک
کرنا بھی چاہتے تھے تو ایسا نہ کر سکے
زندہ دلوں کو زندۂ جاوید کر دکھاؤ
وہ کام تم کرو جو مسیحا نہ کر سکے
فرصت ہمیں ملی نہ غم ہجر یار سے
سامان انبساط مہیا نہ کر سکے
اپنا ہی اعتبار نہیں اس جہان میں
کیسے کہیں کہ تم پہ بھروسا نہ کر سکے
کیسے بیاں ہو ہم سے کسی دل کی آرزو
خلوت نشیں کو انجمن آرا نہ کر سکے
ثاقبؔ جہاں میں آ کے کیا ہم نے کیا اگر
اس جان آرزو کی تمنا نہ کر سکے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.