ہم چٹانوں کی طرح ساحل پہ ڈھالے جائیں گے
ہم چٹانوں کی طرح ساحل پہ ڈھالے جائیں گے
پھر ہمیں سیلاب کے دھارے بہا لے جائیں گے
ایسی رت آئی اندھیرے بن گئے منبر کے بت
گنبد و محراب کیا جگنو بچا لے جائیں گے
پہلے سب تعمیر کروائیں گے کاغذ کے مکاں
پھر ہوا کے رخ پہ انگارے اچھالے جائیں گے
ہم وفاداروں میں ہیں اس کے مگر مشکوک ہیں
اک نہ اک دن اس کی محفل سے نکالے جائیں گے
جنگ میں لے جائیں گے سرحد پہ سب تیر و تفنگ
ہم تو اپنے ساتھ مٹی کی دعا لے جائیں گے
شہر کو تہذیب کے جھونکوں نے ننگا کر دیا
گاؤں کے سر کا دوپٹہ بھی اڑا لے جائیں گے
داستان عشق کو بیکلؔ نہ دے گیتوں کا روپ
دوست ہیں بے باک سب لہجے چرا لے جائیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.