ہم جیسے دل مضطر کی طرح زخموں کا مداوا کون کرے
ہم جیسے دل مضطر کی طرح زخموں کا مداوا کون کرے
اک چارہ گر دل کی خاطر پھر طرفہ تماشا کون کرے
طوفان سے بچنے کی خاطر ساحل سے تقاضا کون کرے
موسم تو بدلتا رہتا ہے موسم کا بھروسہ کون کرے
گرداب تلاطم موج سفر مستول سفینہ ساحل ریت
ان سب سے الجھنے والوں میں دریا سے کنارہ کون کرے
کچھ کام قناعت سے بھی لو کچھ خواب ادھورے رہنے دو
قطرے میں سمایا ہو دریا تو پیاس کو رسوا کون کرے
آلام کی افراتفری میں انسان جئے تو کیسے بھلا
مرنا بھی جہاں آسان نہ ہو جینے کی تمنا کون کرے
ہے داؤں پر اپنی جان مگر لب پر نہ کوئی شکوہ نہ گلہ
اب عشق کے کاروبار میں بھی تل بھر بھی خسارہ کون کرے
دل اس کی طرف ہے جس کی طرف دنیا ہے مری آنکھیں ہیں عکسؔ
کیا اس سے زیادہ اور کہوں ظاہر میں اشارہ کون کرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.