ہم خاک نشینوں پہ تم الہامی عطا ہو
ہم خاک نشینوں پہ تم الہامی عطا ہو
جیسے کسی مجذوب کی مقبول دعا ہو
لے آؤ کوئی مصر سے محبوب کا کرتا
تاکہ مری آنکھوں کا دیا پھر سے ہرا ہو
اس دھج سے منانے کا ہنر اس کو ہے حاصل
میں پھر سے مناؤں گا چلو پھر سے خفا ہو
دنیا میں حسیں لاکھ ہیں پر تم سے نہیں ہیں
گویا تمہیں قدرت نے بھی فرصت میں بنا ہو
آؤ کبھی صحرا میں تو بن جائے وہ گلشن
اس موسم نومید میں پیغام ضیا ہو
نکلے ہے دعا دل سے مرے یہ ہی مسلسل
گونجے جو مرے گھر میں فقط تیری صدا ہو
ہے ان کا بلاوا مجھے ایسے کہ یہ گویا
سرکار کے دربار سے یہ حکم ملا ہو
یہ چیزیں ضروری ہیں تخیل کو ہمارے
اک جام سر شام ہو اور باد صبا ہو
کچھ نکتہ وروں سے بھی ابھی طے نہ ہوا یہ
کیا راز تمہارا ہے کہ تم کون ہو کیا ہو
اے کاش کہ مجھ کو بھی عطا ہو وہ حقیقت
بس میں ہوں مرا یار ہو اور غار حرا ہو
تم اصل میں کیا ہو یہ عیاں کیوں نہیں کرتے
سلطان ہو محبوب ہو بت ہو یا خدا ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.