ہم خاک سے اٹھے چشم سفر میں دشت سنبھالا کشت رکھی
ہم خاک سے اٹھے چشم سفر میں دشت سنبھالا کشت رکھی
وحشت کے موافق سنگ نہ تھا سو شہریت کی خشت رکھی
ہر سمت زمین میں تہہ در تہہ شجرے کے جنگل نقش ہوئے
ہم لوح و قلم کے وارث تھے آثار میں صرف نوشت رکھی
جب افلاطون کا اندھا برگد پھیلا تو غلطان ہوا
سب تن کو جوانی کاٹ گئی تو خشک لبوں پر ہشت رکھی
ہم زرد کتاب کے جلتوں نے تعبیروں کا ہنگام کیا
جب لفظوں کو سرسبز کیا تو پیش نگاہ بہشت رکھی
وہ اہل سلوک تو صحرا میں اک چال چلے اک ڈھال ڈھلے
ہم رستہ ناپنے والوں نے قدموں کی جگہ بالشت رکھی
کیا نیو رکھیں کیا لفظ چنیں دیوار دل کی بات بنے
اک سیدھی سادی اینٹ کہی تو اس پرکار نے خشت رکھی
جب تڑکے سمے کا پات کھلا چمکیلی غزل بھی جاگ پڑی
ہم نے بھی چھون کی مہمانی میں آئینے کی سرشت رکھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.