ہم کھڑے ہیں ہاتھ یوں باندھے ہوئے
ہم کھڑے ہیں ہاتھ یوں باندھے ہوئے
جیسے تو ہو راستہ روکے ہوئے
کس طرح طے ہو سفر تنہائی کا
دور تک ہیں آئنے رکھے ہوئے
راستہ پگڈنڈیوں میں بٹ گیا
اک مسافر کے کئی پھیرے ہوئے
لوگ رخصت ہو چکے بازار سے
ہم ابھی تک ہیں دکاں کھولے ہوئے
سائے میں آئندگی کا دکھ نہاں
دھوپ میں ہیں واقعے لکھے ہوئے
چاہتا ہوں تیرے سپنے دیکھنا
دیکھتا ہوں حادثے ہوتے ہوئے
تنہا اپنے سامنے بیٹھا ہوں میں
اور میرے ہاتھ ہیں پھیلے ہوئے
جل رہے ہیں اپنی ہی سوچوں سے ہم
اپنی ہی دہلیز میں بیٹھے ہوئے
ہو گئیں مجھ کو سبھی بیماریاں
دوسرے بیمار تب اچھے ہوئے
گھن تو محسنؔ جسم کو لگنا ہی تھا
ایک مدت ہو گئی رکھے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.