ہم خموشی سے جو بیتاب ہوا کرتے ہیں
ہم خموشی سے جو بیتاب ہوا کرتے ہیں
بندگانی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
کتنے چمکے ہیں دو پتھر یہ مرے چہرے پر
مرتی آنکھوں میں بھی کچھ خواب ہوا کرتے ہیں
کوئی مٹتے ہوئے لوگوں کو کبھی دیکھے سہی
ٹوٹے ہیرے ہیں جو غرقاب ہوا کرتے ہیں
یہ الگ بات نمی ان کی ہواؤں میں رہے
خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں
بہتے آنسو سے پتہ میرا نہ پوچھو ہمدم
بھاری پتھر تو تہہ آب ہوا کرتے ہیں
ایسے کھلیانوں کی قسمت میں کوئی پھول کہاں
کھارے پانی سے جو سیراب ہوا کرتے ہیں
کون کہتا ہے بدلتا نہیں رنگت پانی
اشک چھلکیں تو وہ خوں ناب ہوا کرتے ہیں
جو در یار پہ دم توڑ دیا کرتی ہیں
ان نگاہوں میں بھی مہتاب ہوا کرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.