Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں

امیر مینائی

ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں

    کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں

    کیا رنگ جہاں میں ہو رہے ہیں

    دو ہنستے ہیں چار رو رہے ہیں

    دنیا سے الگ جو ہو رہے ہیں

    تکیوں میں مزے سے سو رہے ہیں

    پہنچی ہے ہماری اب یہ حالت

    جو ہنستے تھے وہ بھی رو رہے ہیں

    تنہا تہ خاک بھی نہیں ہم

    حسرت کے ساتھ سو رہے ہیں

    سوتے ہیں لحد میں سونے والے

    جو جاگتے ہیں وہ رو رہے ہیں

    ارباب کمال چل بسے سب

    سو میں کہیں ایک دو رہے ہیں

    پلکوں کی جھپک دکھا کے یہ بت

    دل میں نشتر چبھو رہے ہیں

    مجھ داغ نصیب کی لحد پر

    لالے کا وہ بیج بو رہے ہیں

    پیری میں بھی ہم ہزار افسوس

    بچپن کی نیند سو رہے ہیں

    دامن سے ہم اپنے داغ ہستی

    آب خنجر سے دو رہے ہیں

    میں جاگ رہا ہوں اے شب غم

    پر میرے نصیب سو رہے ہیں

    روئیں گے ہمیں رلانے والے

    ڈوبیں گے وہ جو ڈبو رہے ہیں

    اے حشر مدینے میں نہ کر شور

    چپ چپ سرکار سو رہے ہیں

    آئینے پہ بھی کڑی نگاہیں

    کس پر یہ عتاب ہو رہے ہیں

    بھاری ہے جو موتیوں کا مالا

    آٹھ آٹھ آنسو وہ رو رہے ہیں

    دل چھین کے ہو گئے ہیں غافل

    فتنے وہ جگا کے سو رہے ہیں

    ہے غیر کے گھر جو ان کی دعوت

    ہم جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں

    صد شکر خیال ہے اسی کا

    ہم جس سے لپٹ کے سو رہے ہیں

    ہو جائیں نہ خشک داغ کے پھول

    آنسو ان کو بھگو رہے ہیں

    آئے گی نہ پھر کے عمر رفتہ

    ہم مفت میں جان کھو رہے ہیں

    کیا گریہ بے اثر سے حاصل

    اس رونے پہ ہم تو رو رہے ہیں

    فریاد کہ ناخداۓ کشتی

    کشتی کو مری ڈبو رہے ہیں

    کیوں کرتے ہیں غم گسار تکلیف

    آنسو مرے منہ کو دھو رہے ہیں

    محفل برخاست ہے پتنگے

    رخصت شمعوں سے ہو رہے ہیں

    ہے کوچ کا وقت آسماں پر

    تارے کہیں نام کو رہے ہیں

    ان کی بھی نمود ہے کوئی دم

    وہ بھی نہ رہیں گے جو رہے ہیں

    دنیا کا یہ رنگ اور ہم کو

    کچھ ہوش نہیں ہے سو رہے ہیں

    ٹھہرو دم‌ نزع دو گھڑی اور

    دو چار نفس ہی تو رہے ہیں

    پھول ان کو پنہا پنہا کے اغیار

    کانٹے مرے حق میں بو رہے ہیں

    زانو پہ امیرؔ سر کو رکھے

    پہروں گزرے کہ رو رہے ہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے