ہم نے پرند وصل کے پر کاٹ ڈالے ہیں
ہم نے پرند وصل کے پر کاٹ ڈالے ہیں
جذبات اٹھا رہے تھے جو سر کاٹ ڈالے ہیں
لکھنی تھی ہم کو ایک نئی داستان ہجر
سب واقعات دیدۂ تر کاٹ ڈالے ہیں
بیٹھی رہے اسی قفس عنصری میں اب
تیغ بدن نے روح کے پر کاٹ ڈالے ہیں
اب شعر زور بے ہنری سے لکھیں گے ہم
دنیا نے سارے دست ہنر کاٹ ڈالے ہیں
جی چاہتا ہے دست ترقی کو کاٹ دوں
جس نے ہمارے سارے شجر کاٹ ڈالے ہیں
نقاد خشک ذوق کے گھر ہو رہا ہے جشن
آج اس نے سارے مصرعۂ تر کاٹ ڈالے ہیں
شمعیں مکاشفات بدن کی جلانی تھیں
سب معرفت کے تار نظر کاٹ ڈالے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.