ہم پرندوں کے وہ دالان ہوا کرتے ہیں
ہم پرندوں کے وہ دالان ہوا کرتے ہیں
جو سبھی کے لیے زندان ہوا کرتے ہیں
زندگی روز نیا کھیل کھلا دیتی ہے
روز اک چال پہ قربان ہوا کرتے ہیں
صرف قسمت نہیں لاتی کسی کو سڑکوں پر
کچھ تو اپنوں کے بھی احسان ہوا کرتے ہیں
تیری خاطر کیا کرتے ہیں وہ سب کاروبار
جن میں نقصان ہی نقصان ہوا کرتے ہیں
ان زمینوں پہ درختوں کی حکومت تھی کبھی
جو اداسی بھرے میدان ہوا کرتے ہیں
آستینوں کو سلامت رکھا میں نے جن کی
آج وہ لوگ گریبان ہوا کرتے ہیں
اک وہ لبریز سر بزم محبت سے ہے
اور اک ہم جو پشیمان ہوا کرتے ہیں
اپنی گردن پہ سجا لیتے ہیں تہمت اور پھر
خودکشی باندھ کے حیران ہوا کرتے ہیں
جانے کیا بات ہے سیدؔ جو نہیں ملتے ہم
جانے کیا سوچ کے ویران ہوا کرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.