ہم سفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں
ہم سفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں
کچھ گنوانے کا مجھے خوف و خطر تھا ہی نہیں
مجھ کو ہر شام جہاں لے کے توقع آئی
در و دیوار تو موجود تھے گھر تھا ہی نہیں
انگلیاں زخمی ہوئیں تب مجھے احساس ہوا
دستکیں دی تھیں جہاں پر وہاں در تھا ہی نہیں
مجھ سے ہی پوچھا کیے میرے بکھرنے کا سبب
اہل دانش میں کوئی اہل نظر تھا ہی نہیں
دھول اڑائی جہاں خوابوں میں مسلسل میں نے
کسی نقشے میں کہیں پر وہ نگر تھا ہی نہیں
کس پہ الزام رکھیں کس پہ لگائیں تہمت
میری مٹی میں سمٹنے کا ہنر تھا ہی نہیں
یاد اک شخص تھا اک نام ہی ازبر تاراؔ
سوا اس کے کوئی تا حد نظر تھا ہی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.