ہم تہ دریا طلسمی بستیاں گنتے رہے
ہم تہ دریا طلسمی بستیاں گنتے رہے
اور ساحل پر مچھیرے مچھلیاں گنتے رہے
ناتواں شانوں پہ ایسی خامشی کا بوجھ تھا
اپنے اس کے درمیاں بھی سیڑھیاں گنتے رہے
بزم جاں سے چپکے چپکے خواب سب رخصت ہوئے
ہم بھلا کرتے بھی کیا بس گنتیاں گنتے رہے
بانس کے جنگل سے ہو کے جب کبھی گزری ہوا
اک صدائے گم شدہ کی دھجیاں گنتے رہے
کس ہوا نے ڈس لیا ہے رنگ و روغن اڑ گئے
صحن دل سے اس مکاں کی کھڑکیاں گنتے رہے
پہلوئے شب کل اسی چہرے سے روشن تھا مگر
جانے کتنے موسموں کی تلخیاں گنتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.