ہم ٹھہرنے کے نہیں عمر رواں رکھتے ہیں
ہم ٹھہرنے کے نہیں عمر رواں رکھتے ہیں
وہ زمیں گھومتی ہے پاؤں جہاں رکھتے ہیں
دیکھتے سب ہیں مگر بند زباں رکھتے ہیں
اس طرح شہر میں ہم امن و اماں رکھتے ہیں
دل لرزتا ہے تو ڈرتے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائے
شاخ پر ایک ہی تو برگ خزاں رکھتے ہیں
ڈھونڈ لیتا ہے ہر ایک شخص ہمیں ہم شاید
اپنے ہونے کا کہیں کوئی نشاں رکھتے ہیں
کیوں نہیں خانہ بدوشوں کی طرح جی لیتے
رہن رکھنے کے لئے ہم بھی مکاں رکھتے ہیں
بھول جا پڑھ کے پرانوں کی پرانی باتیں
اب وہ سرمایہ نئے لوگ کہاں رکھتے ہیں
عشق کی ابتدا اور انتہا ہم سے پوچھو
پھول کو چوم کے کانٹوں پہ زباں رکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.