ہم تو روٹھے تھے آزمانے کو
ہم تو روٹھے تھے آزمانے کو
کئی آیا نہیں منانے کو
جانے کیا بیر ہے زمانے کو
پھل سمجھتا ہے آشیانے کو
پارساؤں نے غور سے دیکھا
چلتے پھرتے شراب خانے کو
صحن کی خاک بام کے تنکے
کچھ تو دے دو دوا بنانے کو
اور کتنا بلند ہو جاؤں
تیری چوکھٹ پہ سر جھکانے کو
کیا ستم ہے کہ مار کر پتھر
بھول جاتا ہے وہ نشانے کو
اس نے پر بھی مرے نہیں کترے
میں تو راضی تھا پھڑپھڑانے کو
ہم بڑی دور چل کے آئے ہیں
پاؤں اک شخص کے دبانے کو
- کتاب : ہجر کی دوسری دوا (Pg. 46)
- Author : فہمی بدایونی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.