ہم تم کہ روز و شب ملے شام و سحر ملے
ہم تم کہ روز و شب ملے شام و سحر ملے
لیکن نہ دل نہ زاویہ ہائے نظر ملے
چھلنی ہیں پاؤں کانٹوں بھری رہ گزر ملے
ہم کو ہماری شان کے شایاں سفر ملے
میں بھی کچھ اپنے کرب کا اظہار کر سکوں
مجھ کو بھی کچھ سلیقۂ عرض ہنر ملے
بے مانگے پائیں بوند بھی پیاسے تو جی اٹھیں
دریا بھی لے کے خوش نہ ہوں مانگے سے گر ملے
ہم بجلیوں کی زد میں مسلسل رہیں تو کیوں
یہ کیا کہ بجلیوں کو ہمارا ہی گھر ملے
گلشن شگفتگی سے عبارت نہ ہو سکا
غنچے کھلے کھلے سے تو ہر شاخ پر ملے
پیماں تو یہ تھا مل کے نہ بچھڑیں گے عمر بھر
بچھڑے تو اس طرح کہ نہ پھر عمر بھر ملے
تاثیر کے بغیر دعا کا بھی کیا مزا
لطف دعا یہ ہے کہ کہ دعا کو اثر ملے
کھل کر تم ان سے بھی نہ ملے جن سے قرب تھا
اور ہم کہ جس کسی سے ملے ٹوٹ کر ملے
ڈر ہے کہیں نتیجہ رہائی کا یہ نہ ہو
زنداں کے ہم رہیں نہ ہمیں اپنا گھر ملے
کس دل سے آرزوئے خوشی کیجیے کہ اب
حس تک خوشی کی مٹ گئی غم اس قدر ملے
یہ زندگی وہ تپتا ہوا ریگزار ہے
جس میں کہیں نہ سایہ نہ شاخ شجر ملے
وہ حادثے جو وجہ تباہی بنے وقارؔ
ان میں سے کچھ تو گھر کی ہی دہلیز پر ملے
- کتاب : Waqar-e-Hunar (Pg. 78)
- Author : Mohammad Zahiir
- مطبع : Waqar Manvi, Sui walan, Darya Ganj, Delhi (1998)
- اشاعت : 1998
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.