ہمارے آگے رقیب سیاہ رو کیا ہے
دلچسپ معلومات
(بزم تحمل 19 دسمبر 1965)
ہمارے آگے رقیب سیاہ رو کیا ہے
ہوئے جو دوست تم اپنے تو پھر عدو کیا ہے
نہ جانے کتنے ہی ایسے ہیں ایک تو کیا ہے
بڑے بڑوں کی جہاں میں اب آبرو کیا ہے
رگوں میں صرف تموج کی آرزو کیا ہے
جو انقلاب نہ لائے تو پھر لہو کیا ہے
بہار آتے ہی وحشت اگر لے انگڑائی
تو پھر یہ زخم کے ٹانکے ہیں کیا رفو کیا ہے
ملیں تو پوچھیں یہ ارباب حسن جوہر سے
غرض نہیں ہے تو دنیائے رنگ و بو کیا ہے
حقیقتوں پہ ابھی ہیں مجاز کے پردے
جو یہ ہٹیں تو سمجھ میں پھر آئے تو کیا ہے
نگاہ رحمت حق میں یہ آ گئے ورنہ
ہمارے اشک ندامت کی آبرو کیا ہے
جو ہاتھ دھو چکا خود زندگی سے اے شعلہؔ
نماز عشق ہے کیا اس کی پھر وضو کیا ہے
- کتاب : Naghmah-e-Fikr (Pg. 165)
- Author : Shola Saiyed Momin Husain Taqvi Kararivi
- مطبع : Shabistan 218 Shahah ganj Allahabad (1968)
- اشاعت : 1968
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.