ہمارے بیچ غضب کا مکالمہ ہوا تھا
ہمارے بیچ غضب کا مکالمہ ہوا تھا
پھر اس کے بعد یہ سوچا گیا کہ کیا ہوا تھا
نہ صرف تلخ بہت تھا وہ نیلگوں بھی تھا
مجھے تو شک ہے سمندر میں کچھ ملا ہوا تھا
وہ خط جو پڑھنے سے پہلے ہی میں نے پھاڑ دیا
اگرچہ نام تھا میرے مگر کھلا ہوا تھا
مجھے کہانی میں کردار کچھ ملا ایسا
تھے جس کے ہاتھ تو آزاد منہ بندھا ہوا تھا
اکیلی رہ گئی دونوں ہی مر گئے جن میں
مرے حصول کی خاطر مقابلہ ہوا تھا
ذرا قریب جو آیا اسے ڈبو دیں گے
سمندروں کا کسی سے معاہدہ ہوا تھا
چلو وہ دور رہے گا تو بھول جائے گا
ذرا سی دیر مجھے یہ مغالطہ ہوا تھا
جب اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے نشاطؔ
تو کوئی اور بتا دے کہ اس کو کیا ہوا تھا
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 35)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.