ہمارے دل میں کوئی آرزو نہیں باقی
ہمارے دل میں کوئی آرزو نہیں باقی
ہمارے پھول میں اب رنگ و بو نہیں باقی
بہت کہی دل ناداں عدو نہیں باقی
مرا عدو مرے پہلو میں تو نہیں باقی
تمہارے تیر کی اب آرزو نہیں باقی
ہوا ہے پیپ کلیجہ لہو نہیں باقی
یہ مے کدہ ہے کہ مسجد یہ آب ہے کہ شراب
کوئی بھی ظرف برائے وضو نہیں باقی
دھرا ہے کیا مرے گھر میں کہ محتسب لے گا
پر از شراب وہ جام و سبو نہیں باقی
وہ رہ کے غیر کی صحبت میں ہو گئے کچھ اور
وہ بات پچھلی سی اگلی سی خو نہیں باقی
تھکا پڑا ہوں تو واماندگی یہ کہتی ہے
انہیں کسی کی بھی اب جستجو نہیں باقی
جو مے کی بوند نہ نکلی تو پڑ گیا پانی
بحال خویش سبو اب سبو نہیں باقی
ہماری آپ کی بات اٹھ رہی ہے محشر پر
ہماری آپ کی کچھ گفتگو نہیں باقی
جو نکلے خار تو دامن سے سوئیاں الجھیں
جگہ ذرا سی کہیں بے رفو نہیں باقی
بڑھی ہے بات قیامت میں جھوٹے وعدے پر
وہ منفعل ہے تو کچھ گفتگو نہیں باقی
یہ محتسب ہے عبث گھر کو سونگھتا پھرتا
کہ بوند بھر بھی مے مشک بو نہیں باقی
ہوا ہے آئنے کے ساتھ عکس کو سکتا
کسی میں جان ترے روبرو نہیں باقی
بہیں شراب کے دریا تو ہم کو لطف نہیں
کہ سبزہ کچھ بھی لب آب جو نہیں باقی
بڑھی ہے پاک نہادی یہ بادہ نوشوں کی
کہ اب نماز میں قید وضو نہیں باقی
ہماری آنکھ میں تاریک بزم عالم ہے
جو زیب بزم تھے وہ شمع رو نہیں باقی
ریاضؔ موت کو کیوں موت آئی جاتی ہے
ہمیں تو موت کی بھی آرزو نہیں باقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.