ہمارے گھر کی فضاؤں میں یاس کافی ہے
ہمارے گھر کی فضاؤں میں یاس کافی ہے
چراغ جلتے رہیں آس پاس کافی ہے
نگہ ملاتے ہوئے ڈر رہے ہیں لوگوں سے
کہ ہر نگاہ میں خوف و ہراس کافی ہے
وہیں پہ ہے وہ جہاں رسم و راہ ختم ہوئی
تو یہ کہو کہ ابھی تک اداس کافی ہے
میں دیکھتا ہی رہا رنگ اس کے چہرے کا
میں جانتا تھا کہ وہ غم شناس کافی ہے
خلوص کہتے ہیں جس کو وہ اپنے پاس کہاں
یہی سنا ہے کہ اوروں کے پاس کافی ہے
خبر کسی کو نہیں کون کس طرح ڈوبا
مگر ہجوم تو دریا کے پاس کافی ہے
نزاکت دل اقبالؔ کون سمجھے گا
یہ چند لوگ رہیں اپنے پاس کافی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.