ہمارے حال زبوں پر تو مسکرایا بھی تھا
ہمارے حال زبوں پر تو مسکرایا بھی تھا
ضرور اپنی صفوں میں کوئی پرایا بھی تھا
محبتوں میں نئے تجربے ضروری ہیں کیا
ہمیں تو پچھلے برس تم نے آزمایا بھی تھا
مری سحر ستم شب سے بے خبر تو نہ تھی
فلک کی آنکھ میں اک اشک ڈبڈبایا بھی تھا
تجھے پہن کے رتیں اب کے سرخ رو بھی ہوئیں
تری ہنسی نے بہاروں کو گدگدایا بھی تھا
جلا ہوں دوہری طرح دوپہر کے سورج میں
کہ میرے پاؤں کے نیچے تو میرا سایا بھی تھا
بٹھائے رکھا رقیبوں کو جس اشارے سے
اسی میں اٹھنے کا اپنے لئے کنایہ بھی تھا
ستم کے دور کی اعجازؔ خوبیاں تو نہ بھول
کہ آمروں کے دلوں میں غم رعایا بھی تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.