ہمارے کام رفتہ رفتہ سارے بن رہے تھے
ہمارے کام رفتہ رفتہ سارے بن رہے تھے
کہ دریا چل پڑا تھا اور کنارے بن رہے تھے
کسی سے گفتگو آغاز ہونا چاہتی تھی
خدا نے بولنا تھا تیس پارے بن رہے تھے
بچھایا جا چکا تھا اک بچھونا آسماں پر
ابھی مہتاب بننا تھا ستارے بن رہے تھے
چھپائی جا رہی تھی آگ سی اس میں کوئی شے
ہوا معلوم کہ وہ دل ہمارے بن رہے تھے
مری نگران تھیں آنکھیں جہاں پر تو کھڑی تھی
جہاں پر تیری نظریں تھیں نظارے بن رہے تھے
رکی تھی حلق میں آواز سے ملتی ہوئی چیز
تھی کوئی بات جو اتنے اشارے بن رہے تھے
جہاں پر تیز بارش تھی وہیں تھی بند ڈبیہ
وہیں سے ہوتے ہوتے سرخ دھارے بن رہے تھے
گلی میں شور سا برپا تھا اور بچے گھروں سے
نکلنے والے تھے رنگیں غبارے بن رہے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.