ہمارے پاس تھا جو کچھ لٹا کے بیٹھ رہے
ہمارے پاس تھا جو کچھ لٹا کے بیٹھ رہے
دیار دل میں قیامت اٹھا کے بیٹھ رہے
وہاں جہاں پر اندھیروں کا کارواں اترا
کسی امید پہ شمعیں جلا کے بیٹھ رہے
تمہارے ہجر میں جو کچھ گزر گئی گزری
تمہارے وصل میں ہم گھر جلا کے بیٹھ رہے
کہاں کے دار و رسن اور کیا شہید وفا
یہ کاروبار بھی کل پھر اٹھا کے بیٹھ رہے
خبر نہ تھی کہ زماں آشکار تھے جو کبھی
وہ پردہ دار تو چلمن گرا کے بیٹھ رہے
کڑکتی دھوپ میں دشت سفر سے گھبرا کر
فصیل شہر کے سائے میں آ کے بیٹھ رہے
زمانہ کچھ تو کہے ان سے جو بہ حیلۂ دل
کسی کی بزم سے ہم کو اٹھا کے بیٹھ رہے
گری ہے گھر کی کڑی پر کڑی تو گھر والے
غبار شرم میں چہرے چھپا کے بیٹھ رہے
وہ طفل مکتب رسم وفا ہمیں تو نہ تھے
جو اپنی یادوں کا میلہ لگا کے بیٹھ رہے
ہے بازگشت ہی شاید مری فغاں کا جواب
''خدا'' تو اپنی ہی قبروں پہ جا کے بیٹھ رہے
وہ نا خدا تھے زمانے میں معتبر جو سدا
سمندروں میں سفینے بہا کے بیٹھ رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.