ہمارے سینے کے وسط میں اور ہی فضا ہے
ہمارے سینے کے وسط میں اور ہی فضا ہے
وہاں رتیں اور ہیں جہاں خط استوا ہے
امید کو خوف خوف کو کھا رہی ہے غفلت
غذائی زنجیر کی طرح دل کا سلسلہ ہے
ہمارے رونے پہ ہنسنے لگتے ہیں آنے والے
ہماری دیوار گریہ دیوار قہقہہ ہے
تمام عالم پھرا ہوں پہنچا کہیں نہیں ہوں
پہنچ مری نا رسائیوں کی جگہ جگہ ہے
دعا نہیں قحط میں ذہانت ہی کام آئی
یہ کھیت مصنوعی بارشوں سے ہرا ہوا ہے
کدھر کدھر سے بچائیں سینے کی شعلگی کو
بدن کے چاروں طرف ہی قطبین کی فضا ہے
ہماری آہ و فغاں کسی تک نہیں پہنچتی
خلا میں صوت و صدا کی ترسیل مسئلہ ہے
جڑا ہی رہتا ہے خاکساری سے قلب روشن
قمر ہمیشہ زمین کے گرد گھومتا ہے
یہ گریہ حاصل ہے امتزاج نشاط و غم کا
اساس و تیزاب کے عمل سے نمک بنا ہے
میں تجھ کو ماضی میں جا کے ممکن ہے دیکھ پاؤں
بشر تجاذب کی لہر دریافت کر چکا ہے
گنہ پہ آنسو بہا کے ہوں باغ باغ شاہدؔ
مرے سیہ پانیوں میں سبزہ اگا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.