ہماری بادہ کشی سے واقف نہیں ہے شاید ابھی زمانہ
ہماری بادہ کشی سے واقف نہیں ہے شاید ابھی زمانہ
ہم ایک ساغر میں جب بھی چاہیں ڈبو کے رکھ دیں شراب خانہ
تمہاری نظر کرم کا سایہ رہے جو یوں مجھ پہ غائبانہ
میں پھیر دوں حادثوں کے رخ ہی میں روک دوں گردش زمانہ
جو تم چلو جھوم اٹھیں فضائیں رکو تو رک جائے نبض عالم
جہاں تم اپنی نظر جھکا دو وہیں ٹھہر جائے گا زمانہ
نگاہ مخمور کی وہ مستی چھڑا دے رندوں سے مے پرستی
جسے نگاہوں سے تم پلا دو وہ بھول جائے شراب خانہ
یہ حسن والے جفا کے ماہر وفا کی تسکین دے رہے ہیں
فریب کتنا ہے خوب صورت حسین ہے کس قدر بہانہ
ابھی تو دل میں تمہاری یادوں کی مشعلیں جل رہی ہیں پیہم
چراغ داغ جگر ہیں روشن سجا ہوا ہے غریب خانہ
دیا ہے جو دعوت نظارہ تو تاب نظارگی بھی دے دو
وگرنہ اہل جہاں نہ دہرائیں پھر وہی طور کا فسانہ
ہوائیں کچھ گرم ہو رہی ہیں سب اپنے دامن بچائے رکھیں
کہیں شررؔ کی ذرا سی لغزش نہ پھونک دے یہ نگار خانہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.