ہماری زیست کا اک ایک باب کھل جائے
ہماری زیست کا اک ایک باب کھل جائے
خدایا ہم پہ ہماری کتاب کھل جائے
پھر اس کے بعد یہ دشت و دمن بھلا کیا ہیں
جو غور و فکر کریں آفتاب کھل جائے
زمیں پہ راستہ آئے نظر تو کیا ہے عجب
یہ راستہ تو میاں زیر آب کھل جائے
خطیب چیختا ہے روز ہی سر منبر
مجال کیا ہے جو ہم پر خطاب کھل جائے
نہ جانے کب سے در خواب پر ہے قفل پڑا
خدایا اب تو کوئی ہم پہ باب کھل جائے
ہمارے فرض کا دفتر تو کھول ڈالا ہے
ورق حقوق کا بھی اک جناب کھل جائے
عبیدؔ دینا ہے ہم سب کو امتحاں اک دن
دعائیں کیجے کہ ہم پر نصاب کھل جائے
- کتاب : سخن دریا (Pg. 73)
- Author : عبید الرحمن
- مطبع : عرشیہ پبلی کیشن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.