ہمیں نہ آج کسی غم پہ جب ہنسی آئی
ہمیں نہ آج کسی غم پہ جب ہنسی آئی
تو عمر رفتہ نے آواز دی ابھی آئی
ہوئے ہیں محو ہم ایسے کہ دیر تک ہم کو
کسی نے دیکھا تو نظروں میں بے رخی آئی
گئی تھی ساتھ وہاں تک تو دل کی بیتابی
ہمارے ساتھ کہاں سے یہ بے دلی آئی
وہ انقلاب دل دوست آج بھی نہ ہوا
کہ جس کو دیکھنے اک عمر لوٹ سی آئی
اسی کی اچٹی سی باتیں جو آج اس سے کہیں
تو دیر تک نہ سخن میں شگفتگی آئی
وہی صدا مجھے اب اجنبی سی لگتی ہے
حیات رفتہ پلٹ اب کٹھن گھڑی آئی
نگاہ دوست بہت اپنا حال جان لیا
جو تجھ میں درد بھری بے توجہی آئی
خیال پرسش غم تو اسے بھی ہے اے دل
ترے نصیب جو اب تک نہ وہ گھڑی آئی
دل اور درد میں برسوں کی ٹھن گئی ہے یہاں
کسی کے ہونے نہ ہونے سے کیا کمی آئی
یہ دل سے اٹھ کے جو درد آ بسا ہے آنکھوں میں
نہ جانے یاد ہمیں کون سی گھڑی آئی
لگی ہوئی تھیں یہ آنکھیں بہت جو تم پہ تو آج
انہیں میں ہم کو نظر اپنی بے کسی آئی
بالآخر اپنے مزاجوں کے ہو رہے قائل
اگرچہ تیری اداؤں کی یاد بھی آئی
قدم قدم پہ وہ تیری امید سی کی نگاہ
پلٹ کے راستے بھر تجھ کو دیکھتی آئی
اسی کے رنگ میں ہم آج اس سے مل بیٹھے
اسی کے سامنے آج اس کی سادگی آئی
یہاں تو اشک بھر آئے بہ یاد پرسش غم
وہاں نہ جانے ان آنکھوں میں کیوں نمی آئی
ہماری بزم تصور میں وہ نگہ نہ تھی شوخ
یہاں تو جب بھی وہ آئی جھکی جھکی آئی
کسی کو دیکھ کے تنہائی جاگ اٹھتی ہے
کہ یہ ہے جس کے بغیر اس قدر کمی آئی
ہم اپنے درد کو انمول جانتے تھے تلخؔ
ہمیں حیات مروت میں بیچ بھی آئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.