ہمیں نایافت لمحوں سے مفر ہوتا نہ گھر لٹتا
ہمیں نایافت لمحوں سے مفر ہوتا نہ گھر لٹتا
کہ پہلی برف باری میں کہاں زاد سفر لٹتا
کبھی وہ بر سر پیکار رہتا آپ اپنے سے
کبھی وہ دوسروں سے دو بہ دو زیر و زبر لٹتا
تمہیں اس بات کا احساس تو ہوتا ہزیمت پر
ستارے ٹوٹ کر گرتے اگر خواب سحر لٹتا
یہ دیوار و در و محراب و منبر ہیچ ہیں پھر بھی
ہمہ عالم کو لٹنا ہے مگر تو بام پر لٹتا
تری اونچائیوں نے قد کو چھوٹا کر دیا سب کے
تجھے لٹنا تھا وسعت میں اگر بے بال و پر لٹتا
کوئی آواز پیچھے کی طرف مڑنے کو کہتی ہے
مرے بازو قلم ہوتے مرے قدموں پہ سر لٹتا
ترے دکھ کی گواہی چاند تارے بھی نہیں دیتے
کہ دن بھر یوں پڑا سوتا نہ ایسے رات بھر لٹتا
غزل لطف و اثر پا کر بہ طرز میرؔ رقصاں ہے
چلو برپا کریں محفل چلو دیکھیں شرر لٹتا
خمارؔ ایسے سفر میں آنکھ چھن جاتی تو اچھا تھا
کہیں شاخوں کا سودا اور کہیں دیکھا شجر لٹتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.