ہمیں تو عشق میں سب کام اچھے لگ رہے تھے
ہمیں تو عشق میں سب کام اچھے لگ رہے تھے
یہاں تک کہ سبھی الزام اچھے لگ رہے تھے
سنائے جا رہے تھے عشق شوریدہ کے قصے
ہمیں قصے نہیں انجام اچھے لگ رہے تھے
یقیں کی منزلوں سے گو کہ آگے جا رہے تھے
پس منظر مگر اوہام اچھے لگ رہے تھے
شب تاریک میں شب تاب انجم آسماں پہ
یہ دونوں برسر پیغام اچھے لگ رہے تھے
نکو کاری کا دشنامی صلہ ہے کیا گلہ ہے
کہ ہم بدنام ہیں بدنام اچھے لگ رہے تھے
رقیباں خوش تھے شعر شوخ کے تیور پہ ہم بھی
کہ ان شعروں کے سب ایہام اچھے لگ رہے تھے
میاں مجنوں بھی گم تھے نجد کی عریانیوں میں
پہ ہم صحرا میں با احرام اچھے لگ رہے تھے
نماز عشق ادا کرنے کی کوئی جا نہیں تھی
سو یہ سجدے ہمیں ہر گام اچھے لگ رہے تھے
وہ وصلت بھی کوئی وصلت کہ جاں آسودہ خاطر
فراقوں میں انیسؔ خام اچھے لگ رہے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.