ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھا ہے سمندر نے
ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھا ہے سمندر نے
سفر کا استعارہ بن کے رہنا ہے سمندر نے
مری خوشیوں کے مول اس نے خریدا ہے نشہ اپنا
مرے ہر چاند کو خود میں ڈبویا ہے سمندر نے
عجب طوفان غراں ہے بپا ہر فرد خانہ میں
اسی دالان سے جیسے گزرنا ہے سمندر نے
یہ مشت خاک نے پوچھا ہے اکثر موج میں آ کر
کوئی طوفان مجھ جیسا بھی دیکھا ہے سمندر نے
میں اپنے آپ سے بچ کر کہیں بھی جا نہیں سکتا
مجھے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے سمندر نے
کوئی باہر نکلتا ہی نہیں اپنے جزیرے سے
اسی باعث تو اتنا سر اٹھایا ہے سمندر نے
کسی کا نام چھیدے جا رہا ہوں کس بھروسے پر
مرا ریگ بدن جب نوچ لینا ہے سمندر نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.